تحریر: ضامن علی
مقدمہ:
مکتب تشیع کی بنیاد دو حدیثوں پر قائم ہے: ایک حدیث ثقلین ہے جسے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے 90 دن کے اندر چار مقامات پر ارشاد فرمائی۔ دوسری حدیث؛ حدیث غدیر ہے جسے در حقیقت پہلی حدیث کو مکمل کرنے والی حدیث بھی کہا جا سکتا ہے اور عظیم حدیث کو پیغمبرِ اِسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے غدیر خم کے میدان میں حجۃ الوداع سے واپسی پر سوا لاکھ کے مجمع میں ارشاد فرمایا۔[1]
قرآن اور اہل بیت علیہم السّلام کے حوالے سے پیغمبرِ اسلام (ص) کی حد سے زیادہ سفارش اور امیر المؤمنین کو اپنے جانشین اور خلیفہ کے طور پر بار بار پہچنوانے پر آپ کے اصرار سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اس مسئلے کے سلسلے میں بہت زیادہ پریشانی لاحق تھی کہ آپ کے بعد امت اسلامیہ کو اس کی وجہ سے بے انتہا مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور درحقیقت ایسا ہی ہوا کہ مسلمانوں نے پیغمبر اکرم (ص) کی تاکیدات کو فراموش کردیا اور عالم اسلام کو ایسی مشکلات سے دوچار کردیا جن کا راہ حل اس وقت تک مسلمانوں کو نہیں ملے گا جب تک کہ وہ غدیر خم جیسا عظیم پلیٹ فارم پر جمع نہ ہو جائیں، غدیر کے سامنے سر تسلیم خم نہ کریں اور حدیث غدیر کو اپنا وظیفہ نہ سمجھیں۔
غدیر کو اہمیت دینا، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کو اہمیت دینے کے مترادف ہے، کیونکہ غدیر میں جو کچھ ہوا وہ وما ينطق عن الهوى ان هو إلا وحى يوحى کے مالک کی طرف سے ہوا ہے۔ ہم اس مضمون میں غدیر کی اہمیت کو خود صاحبان غدیر یعنی معصومین علیہم السّلام کی نگاہ سے بیان کرتے ہیں:
رسول خاتم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ اور غدیر:
شیخ صدوق نے اپنی کتاب " امالی" میں امام باقر علیہ السلام سے اور آپ نے اپنے جد بزرگوار سے نقل کیا ہے کہ ایک دن رسول خدا (ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا: اے علی خداوند عالم نے آیت "یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک" [2] کو تمہاری ولایت کے بارے میں نازل کیا ہے۔ اگر اس ولایت کو کہ جسے پہنچانے کا خدا نے مجھے حکم دیا نہ پہنچاتا تو میری رسالت بے کار ہو جاتی اور جو شخص خدا کو تمہاری ولایت کے بغیر ملاقات کرے گا اس کا عمل باطل ہے۔ اے علی میں خدا کی وحی کے علاوہ بات نہیں کرتا۔ [3]
علی علیہ السّلام اور حدیث غدیر:
سلیم بن قیس ہلالی امیر المؤمنین علیہ السّلام کی حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کے مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ثم اقبل عليهم على فقال: يا معشرالمسلمين و المهاجرين و الانصار انشد كم الله اسمعتم رسول الله يقول يوم غديرخم كذا و كذا فلم يدع شيئا قال عنه رسول الله الا ذكرهم اياه قالوا نعم. پھر علی (ع) نے لوگوں سے فرمایا: اے مسلمانو! اور اے مہاجرین و انصار! کیا تم لوگوں نے نہیں سنا کہ رسول (ص) نے غدیر کے دن کیا فرمایا؟ اس کے بعد ان تمام باتوں کو رسول نے غدیر کے دن فرمائیں تھیں یاد دہانی کروایا۔ سب نے اقرار کیا کہ ہاں یہ سب کہا تھا، اس سلسلے میں امیر المؤمنین کے استدلالات کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے منجملہ وہ استدلال جو آپ نے ابوبکر کیلئے پیش کیا تھا کہ فرمایا: حدیث غدیر کی بنیاد پر آیا میں تمہارا اور مسلمانوں کا مولا ہوں یا تم؟ ابوبکر نے کہا: آپ!
ابی الطفیل کہتے ہیں کہ جس دن حضرت عمر نے شوریٰ کو دعوت دی، میں گھر پر تھا میں نے سنا کہ علی (ع) نے فرمایا کیا میرے علاوہ کوئی اور تمہارے درمیان ہے جس کے بارے میں پیغمبر (ص) نے فرمایا ہو: من کنت مولاہ فھذا مولاہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ" سب نے کہا: نہیں کوئی نہیں ہے۔
حضرت فاطمه الزھراء سلام اللہ علیہا اور غدیر:
ابن عقدہ نے اپنی کتاب "الولایۃ" میں محمد بن اسید سے یوں نقل کیا ہے کہ فاطمه زہراء (س) سے پوچھا گیا کہ کیا پیغمبرِ اسلام (ص) نے اپنی رحلت سے پہلے علی (ع) کی امامت کے بارے میں کچھ فرمایا؟ جناب زہراء سلام اللہ علیہا نے جواب دیا: «و اعجباانسيتم يوم غديرخم؛» [7] بہت تعجب ہے! کیا تم لوگوں نے غدیر خم کو فراموش کر دیا ہے؟
فاطمه بنت الرضا انہوں نے فاطمه بنت الکاظم (س) سے انہوں نے فاطمه بنت الصادق علیھن السلام سے یوں نقل کیا ہے کہ ام کلثوم دختر فاطمه الزھراء (س) نے نقل کیا ہے کہ پیغمبرِ اسلام (ص) نے غدیر کے دن فرمایا: " من کنت مولاہ فعلی مولاہ" [8]
امام حسن مجتبی علیہ السّلام اور غدیر:
امام جعفر صادق (ع) سے روایت ہے کہ جب امام حسن مجتبیٰ علیہ السّلام نے معاویہ سے صلح کرنا چاہی تو اس سے فرمایا: مسلمانوں نے پیغمبرِ اسلام (ص) سے سنا ہے کہ آنحضرت (ص) نے میرے بابا کے بارے میں فرمایا: " انہ منی بمنزلۃ ھارون من موسی" اسی طرح انہوں نے مزید فرمایا کہ پیغمبرِ اسلام )ص) نے میرے بابا کا غدیر خم میں امام کے عنوان سے تعارف کروایا ہے۔ [9]
امام حسین علیہ السّلام اور غدیر:
سلیم بن قیس سے روایت ہے کہ امام حسین علیہ السّلام معاویہ کی موت سے پہلے خانۂ کعبہ کی زیارت کیلئے تشریف لے گئے۔ آپ نے بنی ہاشم کو جمع کیا اور فرمایا: کیا آپ جانتے ہیں کہ پیغمبرِ اسلام (ص) نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو غدیر خم کے دن مقام امامت پر منصوب کیا؟ سب نے کہا: ہاں، اے فرزند رسول۔ [10]
امام زین العابدین علیہ السّلام اور غدیر:
مشہور تاریخ نگار ابن اسحاق کہتے ہیں کہ علی بن حسین علیہما السّلام سے پوچھا گیا کہ " من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ" کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: " اخبرھم إنه الامام بعدہ"۔ پیغمبر اسلام (ص) نے لوگوں کو یہ خبر دی کہ ان کے بعد علی (ع) امت کے امام ہیں۔ [11]
امام باقر علیہ السّلام اور غدیر:
ابان بن تغلب کہتے ہیں: امام باقر علیہ السلام سے پیغمبر اسلام (ص) کے اس قول: " من کنت مولاہ فعلی مولاہ" کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: اے ابو سعید پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا: امیر المؤمنین لوگوں کے درمیان میرے جانشین ہوں گے۔ [12]
امام صادق علیہ السّلام اور غدیر:
زید شحام کہتے ہیں: میں امام صادق علیہ السلام کے پاس تھا، مکتب معتزلہ کے ایک آدمی نے آپ سے سنت کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے جواب دیا: ہر وہ چیز جس کی انسان کو ضرورت ہے اس کا حکم خدا اور اس کے پیغمبر کی سنت میں موجود ہے۔ اگر سنت نہ ہوتی خداوند عالم کبھی بھی اپنے بندوں پر حجت تمام نہ کرتا۔ اس آدمی نے پوچھا: خداوند عالم نے کس چیز کے ذریعے ہمارے اوپر حجت تمام کی ہے؟
آپ نے فرمایا: «اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا»؛ خدا نے اس طریقے سے ولایت کو مکمل کیا اس سنت کے ذریعے حجت کو تمام کیا ہے۔ [13]
امام موسی کاظم علیہ السّلام اور غدیر:
عبد الرحمن بن حجاج نے حضرت موسی بن جعفر (ع) سے غدیر خم کی مسجد میں نماز [14] کے بارے میں سوال کیا : آپ نے جواب میں فرمایا: «صل فيه فان فيه فضلا و قد كان ابى يامربذلك» [15] اس میں نماز پڑھو اس لئے کہ اس میں نماز پڑھنے کی بہت فضیلت ہے اور بتحقیق میرے بابا نے اس امر کیلئے حکم کیا ہے۔
امام رضا علیہ السّلام اور غدیر:
محمد بن ابی نصر بزنطی کہتے ہیں: امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ مجلس لوگوں سے بھری تھی اور آپس میں غدیر کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ بعض لوگ اس واقعہ کا انکار کر رہے تھے امام علیہ السلام نے فرمایا: میرے والد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ روز غدیر آسمان والوں کے ہاں زمین والوں سے زیادہ مشہور اور مقبول ہے۔ اس کے بعد فرمایا: اے ابی بصیر، " این ما کنت فاحضر یوم الغدیر" جہاں بھی رہوں غدیر کے دن امیر المؤمنین (ع) کے پاس جانا۔ یقیناً اس دن خداوند عالم مسلمان مرد و زن کے ساٹھ سال کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اور دوبرابر زیادہ لوگوں کو ماہ رمضان کی نسبت، جہنم کی آگ سے نجات دلاتا ہے، اس کے بعد فرمایا: «والله لوعرف الناس فضل هذا اليوم بحقيقه لصافحتهم الملائكه كل يوم عشر مرات» [16] اگر لوگ اس دن کی قدر و قیمت کو جان لیتے تو بغیر شک کے ہر روز دس بار فرشتے ان سے مصافحہ کرتے۔
امام محمد تقی علیہ السّلام اور غدیر:
ابن ابی عمیر نے ابو جعفر ثانی (ع) سے اس آیت "یا ایھا الذین آمنوا اوفوا بالعقود" [17] کے ذیل میں یوں نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے دس جگہوں پر اپنی خلافت کی طرف اشارہ کیا اس کے بعد آیت "یا ایھا الذین آمنوا اوفوا بالعقود" نازل ہوئی۔ [18]
اس روایت کی وضاحت میں یوں کہنا چاہیئے کہ مذکورہ آیت سورہ مائدہ کے شروع میں ہے۔ یہ سورہ آخری سورہ ہے جو پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہوا ہے۔ اس سورہ میں آیت اکمال اور آیت تبلیغ ہیں جو کہ واقعۂ غدیر کی محکم دلیلوں میں سے ہیں۔
امام علی النقی علیہ السّلام اور غدیر:
شیخ مفید نے کتاب ارشاد میں امیر المؤمنین علی (ع) کی زیارت کو امام حسن عسکری اور آپ نے امام ہادی سے نقل کرتے ہوئے یوں بیان کیا ہے کہ امام محمد تقی علیہ السّلام نے غدیر کے دن حضرت علی علیہ السلام کی زیارت کی اور فرمایا: «اشهد انك المخصوص بمدحةالله المخلص لطاعةالله ...»؛ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کی مدح و ثناء آپ سے مخصوص ہے اور آپ اس کی اطاعت میں مخلص ہیں۔
اس کے بعد فرمایا: خداوند عالم نے حکم دیا: «يا ايهاالرسول بلغ ما انزل اليك من ربك و ان لم تفعل فمابلغت رسالته و الله يعصمك من الناس.» اس کے بعد فرمایا: پیغمبر اسلام (ص) نے لوگوں کو خطاب کیا اور ان سے پوچھا: کیا میں نے جو کچھ میرے ذمہ تھا تم لوگوں تک نہیں پہنچایا؟ سب نے کہا: پہنچا دیا یا رسول اللہ!
اس کے بعد فرمایا: خدایا گواہ رہنا۔ اس بعد فرمایا: : «الست اولى بالمومنين من انفسهم؟ فقالوا بلى فاخذ بيدك و قال من كنت مولاه فهذا على مولاه، اللهم وال من والاه و عاد من عاداه و انصر من نصره و اخذل من خذله؛» کیا میں مؤمنین پر ان کے نفوس سے زیادہ حق نہیں رکھتا ہوں؟ سب نے کہا: ہاں، یا رسول اللہ آپ زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اس کے بعد علی (ع) کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں۔ [19]
امام حسن عسکری علیہ السّلام اور غدیر:
حسن بن ظریف نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو خط لکھا اور پوچھا: پیغمبر اسلام (ص) کے اس قول " من کنت مولاہ فعلی مولاہ" کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے جواب میں فرمایا: «اراد بذلك ان جعله علما يعرف به حزب الله عند الفرقة»؛ خداوند عالم نے ارادہ کیا کہ یہ جملہ علامت اور پرچم قرار پائے تاکہ اللہ کا گروہ اختلاف کے وقت اس کے ذریعے پہچانا جائے۔
اسحاق بن اسماعیل نیشابوری کہتے ہیں کہ حضرت حسن بن علی علیہما السّلام نے ابراہیم سے یوں فرمایا: خداوند عالم نے اپنی رحمت اور احسان کے طفیل واجبات کو تمہارے اوپر مقرر کیا یہ کام اس کی ضرورت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس کی رحمت کا تقاضا تھا جو تمہارے شامل حال ہوئی۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس نے ایسا کیا تاکہ ناپاک لوگوں کو پاک لوگوں سے الگ کرے اور تمہارے باطن کو پرکھے، تاکہ اس کی رحمت تمہارے شامل حال ہو اور بہشت میں تمہارا مقام معین ہو۔
اسی وجہ سے حج، عمرہ، نماز کی ادائیگی، زکوٰۃ، روزہ اور ولایت کو تمہارے اوپر چھوڑا اور تمہارے راستے میں ایک دروازہ رکھا، تاکہ اس کے ذریعے دوسرے واجبات کے دورازوں کو اپنے اوپر کھول سکو۔ اس دروازے کو کھولنے کیلئے ایک چابی رکھی ہے اور وہ ہے محمد اور آل محمد علیہم السّلام۔ اگر محمد اور آل محمد علیہم السّلام نہ ہوتے تو تم لوگ حیوانوں کی طرح سرگرداں گھومتے رہتے اور کسی بھی فریضے کی ادائیگی نہ کر پاتے۔ مگر گھر میں دروازے کے علاوہ انسان داخل ہو سکتا ہے؟ جب خداوند عالم نے پیغمبرِ اسلام صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے اولیاء کو معین کر کے اپنی حجت تمہارے اوپر تمام کر دی تو فرمایا: «اليوم اكملت لكم دينكم و اتممت عليكم نعمتى و رضيت لكم الاسلام دينا» [20] کہ آج میں نے دین کو تمہارے اوپر کامل کر دیا اور نعمت کو تمام کر دیا اور اسلام سے راضی ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے اولیاء کے کچھ حقوق تمہاری گردنوں پر رکھے اور تمہیں حکم دیا کہ ان کے حقوق کو ادا کرو، تاکہ تمہاری عورتیں، تمہارا مال و دولت، خوراک و پوشاک تمہارے اوپر حلال ہو اور اس کے ذریعے برکت اور ثروت کو پہچانے اور تم میں سے اطاعت کرنے والوں کو پہچانیں۔[21]
امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجه الشریف اور غدیر:
امام زمانہ علیہ السّلام سے منسوب دعائے ندبہ میں وارد ہوا ہے: فلما انقضت ایامہ اقام ولیہ علی بن ابی طالب صلواتک علیھما و آلھما ھادیا اذ کان ھو المنذر و کل قوم ھاد فقال و الملاء امامہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔۔۔ جب محمد رسول اللہ (ص) کا وقت پورا ہو گیا تو ان کی جگہ علی بن ابی طالب علیہما السّلام نے لے لی ان دونوں پر اور ان کی آل پر تیری رحمتیں ہوں، علی (ع) رہبر ہیں جبکہ محمد (ص) ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کیلئے رہبر ہیں پس آپ (ص) نے صحابہ کرام سے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے علی بھی مولا ہیں۔
حوالہ جات:
1۔ حديث ثقلين اہلسنت کے اکثر منابع میں ذکر ہوئی ہے ہم یہاں پر صرف چند ایک طرف اشارہ کرتے ہیں: السنه شيبانى، ص 337 و 629 ح 1551؛ صحيح ترمذى، ج 5، ص 663؛ سنن كبرى بيهقى، ج 10، ص 114؛ المستدرك، حاكم نيشابورى، ج 3، ص 110؛ فضائل الصحابه، احمد بن حنبل، ج 1، ص 171 و ج 2، ص 588؛ سنن ابى داود، ج 2، ص 185؛ طبقات كبرى، ابن سعد، ج 2، ص 194؛ صحيح مسلم، ج 4، ص .1873
2۔ سوره مائده، آيه .71
3۔ امالى شيخ صدوق، مجلس، 74، ص .400
4۔ كتاب سليم بن قيس هلالى، نشر موسسه بعثت، ص .41
5۔ امالى شيخ صدوق، ج 1، ص .342
6۔ اثبات الهداة، حرعاملى، ج 2، ص 112، ح 473؛ مناقب ابن شهر آشوب، ج 3، ص 25 ـ .26
7۔ اثبات الهداة، ج 2، ص 112؛ احقاق الحق، ج 16، ص .282
8۔ امالى شيخ صدوق، ج 2، ص .171
9۔ امالى شيخ صدوق، ج 2، ص .171
10۔ سليم بن قيس، ص .168
11۔ معانى الاخبار، ص 65؛ بحارالانوار، ج 37، ص .223
12۔ معانى الاخبار، ص .66
13۔ تفسير برهان، ج 1، ص .446
14۔ اس مسجد کی اہمیت کو جاننے کیلئے مجلۂ ميقات حج شماره 12 کی طرف رجوع کیا جائے۔
15۔ اصول كافى، ج 4، ص .566
16۔ تهذيب الاحكام، شيخ طوسى، ج 6، ص 24، ح 52؛ مناقب ابن شهرآشوب، ج 3، ص .41
17۔ سوره مائده، آيه .1
18۔ تفسيرقمى، ج 1، ص .160
19۔ بحارالانوار، ج 100، ص .363
20۔ بحار الانوار، ج 37، ص .223
21۔ علل الشرائع، ج 1، ص 249، باب 182، ح .66